آپ اسی طرح کبھی کبھی ھسپتالوں کا چکر بھی لگالیا کریں ،آپ کو وہاں اپنے جیسے سینکڑوں ہزاروں لوگ ملیں گے، یہ لوگ بھی چند دن ،چند گھنٹے پہلے تک آپ کی طرح دوڑتے، بھاگتے، لپکتے اور شور مچاتے انسان تھے ،یہ بھی آپ کی طرح سوچتے تھے کہ یہ زمین پر ایڑی رگڑیں گے تو تیل کے چشمے پھوٹ پڑیں گے، ان کا بھی خیال تھا یہ پائوں مار کر زمین ھلادیں گے اور ان کو بھی یہ گمان تھا کہ دنیا کا کوئی وائرس، کوئی جراثیم، اور کوئی دھات انہیں نقصان نہیں پہنچا سکتی لیکن پھر ایک دن زندگی ان کے لیئے عذاب بن گئی ،ان کے پاوں، ان کے ھاتھ، ،ان کی آنکھیں، ان کے کان ،ان کا جگر ،ان کا دل ،ان کا دماغ اور ان کے گردے ان کے ساتھ بے وفائی کر گئے اور یہ اپنے ٹھنڈے گرم محلوں سے نکل کر ھسپتال کے بدبودار کوریڈورز کے مسافر بن گئے، آپ ھسپتالوں کے پرائیویٹ وارڈز اور مھنگے پرائیویٹ ہسپتالوں کا چکر ضرور لگایا کریں ،آپ کو وہاں وہ لوگ ملیں گے جو مہنگے سے مھنگا ڈاکٹر اور قیمتی سے قیمتی ترین دوا خرید سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ بے بسی کے عالم میں ہسپتالوں میں پڑے ہیں کیوں ؟کیونکہ انسان ڈاکٹر اور دوا تو خرید سکتا ہے لیکن شفا نہیں اور یہ لوگ قدرت کے اس قانون کی قیدی بن کر ہسپتالوں میں پڑے ہیں، آپ مریضوں کو دیکھیں پھر اپنے آپ کو دیکھیں، اللہ کا شکر ادا کریں اور صحت کی اس مہلت کو مثبت طریقے سے استعمال کریں ۔
آپ جیلوں کا چکر بھی لگایا کریں ،آپ کو وہاں ایسے سینکڑوں ہزاروں لوگ ملیں گے جو کبھی آپ کی طرح آزاد پھرتے تھے ،یہ رات کے تین بجے کوفی پینے نکل جاتے تھے، یہ سردیوں کی یخ ٹھنڈی راتیں اپنے نرم اور گرم بستر پر گزارتے تھے لیکن یہ کسی دن کسی اپنے حیوانی جذبے کے بہکاوے میں آگئے، یہ کسی کمزور لمحے میں بہک گئے اور طیش میں عیش یا پھر خوف میں ان سے کوئی ایسی غلطی سرزد ہوگئی جس کی پاداش میں یہ لوگ سلاخوں کے پیچھے پہنچ گئے اور یہ اب جیل کے معمول کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔آپ سزائے موت کے قیدیوں سے بھی ضرور ملیں، آپ ان سے مل کر محسوس ہوگا ہم لوگ رقابت کے جذبے کو ایک لمحے کا دینے کے لیئے، ہم اپنی انا کو گنے کے رس کا ایک گلاس پلانے کے لیئے، ہم ایک منٹ کیلئے اپنی ناک کو دوسروں کی ناکوں سے بلند رکھنے کے لیئے اور ہم دوسروں کی ضد کو کچلنے کے لیے بعض اوقات ایسی غلطی کر بیٹھتے ہیں کہ موت بھی ہم پر ترس کھانے سے انکار کردیتی ہے اور ہم جیل کی سلاخیں پکڑ کر اور اللہ سے معافی مانگ مانگ کر دن کو رات اور رات کو دن میں ڈھلتا ہوا دیکھتے ہیں لیکن ہماری سزا پوری نہیں ہوتی ۔ آپ جیل کے قیدیوں کو سلاخوں کے پیچھے کھڑے ہو کر اپنی بیویوں کو
حسرتوں سے دیکھتے ہوئے دیکھیئے، آپ ان کی کانپتی ہوئی ان انگلیوں کو دیکھیں جو اپنے بچوں کے لمس کو ترس گئی ہیں، آپ ان کے بے قرار پاوں دیکھئے جنہیں آزادی کا احساس چکھے ہوئے کئی برس بیت گئے ہیں اور آپ ان کی آنکھوں میں تیرتے ہوئے ان رت جگوں کی فصلیں بھی دیکھئے جو انہوں نے اپنی غلطی، اپنی کوتاہی، اور اپنے جرم پر معافی مانگ مانگ کر اگائی ہیں لیکن قدرت یہ فصل کاٹنے پر راضی نہیں ہورہی ۔
آپ ان لوگوں کو دیکھیئے، اپنے اوپر نگاہ ڈالئے اور پھر یہ سوچئے آپ پر بھی دن میں ایسے سینکڑوں ہزاروں کمزور لمحے آتے ہیں، آپ بھی لالچ کے بہکاوے میں آتے ہیں، آپ بھی غرور اور تکبر کے ماؤنٹ ایورسٹ پر چڑھ جاتے ہیں، آپ بھی رقابت کے نرغے میں آکر دوسرے لوگوں کی زندگیوں کو کھیل بنالیتے ہیں، آپ بھی غیر ت کے سراب میں الجھ کر دوسروں کا خون پینے کا فیصلہ کرتے ہیں اور آپ بھی دوسروں کے مال کو اپنا بنانے کے منصوبے بناتے ہیں لیکن کوئی نادیدہ ہاتھ ،کسی دوست کی کوئی نصیحت اور حالات کی مہربانی آپ کو روک لیتی ہے،آپ باز آجاتے ہیں اور یہ بھی ہوتا ہے قدرت آپ پر خاص مھربانی کرتے ہوئے آپ کی خامیوں، آپ کی کوتاہیوں، آپ کی غلطیوں، آپ گناہوں اور آپ کے جرائم پر پردہ ڈال دےتی ھے ،یہ آپ کو گواہیوں، ثبوتوں، قانون اور کچھریوں سے بچائے رکھتی ہے لیکن آپ قدرت کی اس مہربانی کو اپنی چالاکی ،اپنا کمال سمجھ لیتے ہیں، آپ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں آپ چارلس سوبھراج ہیں جسے اللہ تعالی نے قانون کی آنکھوں میں خاک جھونکنے کیلئے دنیا میں بھیجا ہے اور دنیا کا کوئی قانون ، کوئی ضابطہ آپ کو کبھی پکڑ نہیں سکے گا ۔
آپ کو قبرستانوں، ہسپتالوں اور جیلوں میں بے گناہ، معصوم، اور انتہائی شریف لوگ بھی ملیں گے، یہ لوگ کبھی کوئی ضابطہ، کوئی اصول نہیں توڑتے تھے ،یہ اس قدر محتاط لوگ تھے کہ یہ آب زم زم بھی ابال کر پیتے تھے، یہ دودھ ،دھی، اور مکھن کے لیئے اپنی بھینسیں پالتے تھے اور دیسی مرغی کا شوربہ پیتے تھے، یہ ہمیشہ رات نو بجے سو جاتے تھے اور صبح پانچ بجے آٹھ جاتے تھے اور ان سے پوری زندگی کوئی بے اعتدالی، کوئی غفلت سرزد نہیں ہوئی ،آپ ایسے لوگ بھی دیکھیں گے جو آرام سے اپنے گھر میں سوئے ہوئے تھے، جو اپنی لین میں گاڑی چلا رہے تھے یا فٹ پاتھ پر اپنی سمت میں جارے تھے اور آپ کو ایسے لوگ بھی ملیں گے جنہوں نے پوری زندگی قانون کا احترام کیا ، یہ تھانے کے سامنے گزرتے ہوئے سر جھکا لیتے تھے اور نیلی پیلی ہر قسم کی یونیفارم کو سلام کر کے آگے جاتے تھے اور جو دوسری جنگ عظیم کے دوران بننے والے قوانین کا بھی احترام کرتے تھے اور جنہوں نے آج بھی سائیکل پر بتی لگوا رکھی تھی لیکن پھر یہ لوگ دوسرے کردہ جرائم میں محبوس ہوگئے ،یہ بےگناہ ہونے کے باوجود قانون نہ کھلنے ،نہ ٹوٹنے والے دانتوں میں پھنس گئے ،آپ کو ایسے لوگ بھی ملیں گے جو کھیرا کاٹنے سے پہلے اسے ڈیٹول سے دھوتے تھے لیکن یہ لوگ بھی ہسپتال کے مستقل مہمان بن گئے اور ایسے لوگ بھی جو فٹ پاتھ پر دوسروں کی موت کا نوالہ بن گئے، جو کسی آوارہ گولی کا نشانہ بن گئے یا پھر ان کے سر پر کوئی طیارہ آکر گرگیا ،آپ ان لوگوں کو دیکھئے اور اس کے بعد اپنے اوپر نگاہ ڈالئے اور پھر سوچئے یہ طیارہ آپ پر بھی گر سکتا ہے ،دوسری لین کوئی گاڑی اڑ کر آپ کے موٹر سائیکل، آپ کی گاڑی پر بھی گر سکتی ہے اور ڈاکٹر اچانک آپ کو بھی کینسر کا مریض ڈکلیئر کر سکتے ہیں یا پھر آپ کے دل کے اندر بھی اچانک درد کی ایک لھر دوڑ سکتی ہے اور آپ کو کلمہ تک پڑھنے کی مہلت نہیں ملتی ۔یہ سب کچھ ہمارے ساتھ ہوسکتا ہے، یہ ہم بھی ہوسکتے ہیں لہذا آئیے اللہ تعالی کا شکر ادا کریں اور اس مہلت ،اللہ تعالی کی اس مہربانی پر اس کا شکر یہ ادا کر ین اور کبھی کبھی جیلوں، ہسپتالوں اور قبرستانوں میں بھی ایک گھنٹہ گذار لیا کریں کیونکہ یہ تین جگہیں ہیں جہاں گئے بغیر ہمیں زندگی کی اصل حقیقت، اپنی اوقات اور اللہ تعالی کی مہربانیوں کا اندازہ نہیں ہوسکتا..
اللہ اکبر کبیرا
No comments:
Post a Comment