state life insurnace details, business,motivational,networking marketing tips,

STAY WITH US

Post Top Ad

Saturday 1 April 2017

”میری نظر میں لوگوں کا احسان اتارنے کا اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں ہو سکتا‘ میں غریب تھا اس ملک کے مہربان لوگوں نے میری مدد کی‘ میں تعلیم حاصل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا تھا‘ اس ملک کے ہمدرد لوگوں نے مجھے تعلیم دلائی‘ میرے پاس سرمایہ نہیں تھا‘ اس ملک کے شفیق لوگوں نے مجھے ملک کا بہترین بزنس مین بنایا‘ مجھے سیاست کا کوئی تجربہ نہیں تھا‘ اس ملک کے ذہین عوام نے مجھے صدر بنایا چنانچہ میرے پاس آج جوکچھ بھی ہے یہ سب عام لوگوں کا دیا ہوا ہے۔ میری زندگی‘ میرے علم‘ میرے کاروبار‘ میرے سرمائے‘ میری سیاست اور میری شہرت کی بنیاد عوام ہیں‘ یہ لوگ اگر میری مدد نہ کرتے تو لی مائیونگ باک‘ صدر لی نہ بنتا لہٰذا میں نے اپنی 80فیصد دولت اس ملک کے غریب طالب علموں کیلئے وقف کردی“ صد رلی موئیونگ جونہی خاموش ہوئے عوام نے تالیاں بجا کر آسمان سر پر اٹھا لیا‘ یہ حقیقتاً دنیا کے حکمرانوں کیلئے ایک مثال تھی۔

لی موئیونگ باک 2008ءسے 2013ءتک جنوبی کوریا صدررہے‘انہوںنے زندگی حقیقتاً فٹ پاتھ سے شروع کی تھی۔ یہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان کے شہر اوساکا میں پیدا ہوئے ‘ ان کے والد ایک فارم ہاﺅس میں کام کرتے تھے ‘ لی موئیونگ کی آنکھ کھلی تو ان کے چاروں طرف غربت کے ڈھیر لگے تھے اور اس وقت ان کے پاس دو آپشن تھے ‘وہ اس غربت کا کیڑا بن کر ایک خاموش‘ چپ چاپ اور اذیت ناک زندگی گزار دیں یا پھراس غربت کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیں‘ وہ غربت‘ عسرت اور بے روزگاری سے جنگ کریںاور حالات کو شکست دے کر زمانے کی چٹان پر اپنا نام لکھ دیں۔ لی موئیونگ باک نے دوسرا راستہ اختیار کیا‘ انہوں نے ایک ہاتھ میں بیلچہ اٹھایا اور دوسرے ہاتھ میں کتاب پکڑ لی اور مزدور طالب علم بن گئے۔ آپ کو یاد ہو گا وزیر اعلٰی پنجاب میاں شہباز شریف نے گزشتہ برس چند ایسے طالب علموں کو تاحیات سکالر شپ دئیے تھے جنہوں نے رکشے چلا کر‘ مزدوروں کے ساتھ اینٹیں ڈھو کر اور ٹرالیوں میں مٹی بھر کر میٹرک کے امتحانات میں پوزیشنیں حاصل کی تھیں۔ صدر لی موئیونگ باک بھی ایک ایسے ہی بچے تھے انہوںنے کتاب اور بیلچہ دونوں کو ساتھ ساتھ رکھااوران حالات میں بنیادی تعلیم پوری کی‘ وہ پھر کالج پہنچے اور کالج سے یونیورسٹی۔ وہ یونیورسٹی کی تعلیم تک کام کرتے رہے۔تعلیم کے دوران صدر لی موئیونگ باک کو چند دلچسپ تجربے بھی ہوئے‘ ان کی فیسوں اور داخلہ فیسوں کا وقت آ گیا‘ ان کے پاس پیسے نہیں تھے اور وہ اگرایک آدھ دن میں فیس جمع نہ کر پاتے تو ان کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو جاتا لیکن اس وقت ان جیسے کسی دوسرے غریب نے اپنے گھر کا سامان بیچ کر ان کی فیس ادا کر دی اور یوں ان کا تعلیمی سلسلہ جاری رہا۔ لی موئیونگ باک نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت کر لی‘ وہ بچپن سے محنت کے عادی تھے‘ یہ محنت نوکری میں ان کے کام آئی اور وہ ہنڈائی کنسٹرکشن کمپنی میں ملازم تھے‘

وہ اپنی محنت کے بل بوتے پر 29سال کی عمر میں اس کمپنی کے ڈائریکٹر بنے‘ 35سال کی عمر میں چیف ایگزیکٹو آفیسر اور 47سال کی عمر میں کمپنی کے چیئرمین ہو گئے ۔ انہوں نے ملازمت کے دوران کروڑوں روپے کمائے اور1992ءتک پہنچ کر ان کی زندگی رواں‘ مطمئن اور آسودہ ہو چکی تھی‘ ان کی بیگم انتہائی شائستہ اور چاروں بچے مہذب تھے اور وہ کوریا میں شاندار زندگی گزار رہے تھے لیکن پھر اچانک انہوںنے سیاست میں آنے کا فیصلہ کر لیا‘ یہ فیصلہ اس وقت انتہائی احمقانہ اور فضول دکھائی دیتا تھا کیونکہ جنوبی کوریا میں اس وقت تک کوئی بزنس مین سیاست میں کامیاب نہیں ہوا تھا لیکن لی موئیونگ باک نے اس تھیوری کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کر لیا‘ وہ سیاست میں آئے اور بڑی تیزی سے جنوبی کوریا کے صف اول کے سیاستدان بن گئے ۔ وہ دوبار اسمبلی کے ممبر بنے اور ایک بار سیول شہر کے میئر۔ انہوںنے اپنی میئرشپ کے دوران سیول شہر کا سارا حلیہ بدل دیا تھا اور اپنی اسی کارکردگی کی بناءپر انہوں نے 2008ءکا صدارتی الیکشن لڑا اورفروری 2008ءمیں جنوبی کوریا کے صدر منتخب ہو گئے۔ لی مائیونگ باک جنوبی کوریا کے پہلے سیلف میڈ اور بزنس مین صدر تھے اور عوام کو ان کے بیک گراﺅنڈ کی وجہ سے بے شمار خدشات لاحق تھے۔ جنوبی کوریا میں صدر کی تنخواہ 14ملین وان ماہانہ ہے لیکن صدر لی موئیونگ باک نے اقتدار سنبھالتے ہی اپنی تنخواہ کم آمدنی کے حامل شہریوں کیلئے وقف کرنے کااعلان کرکے پوری دنیا کو حیران کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا ”میں ایک خوشحال شخص ہوں‘ میں اپنی جیب سے اپنی ضروریات پوری کر سکتا ہوں ‘میں سرکاری خزانے سے تنخواہ کیوں لوں چنانچہ میں اپنی تنخواہ غریب شہریوں کیلئے وقف کرتا ہوں“ اس کے ساتھ ہی لی مائیونگ باک نے ایک فنڈ قائم کیا‘ اپنی تنخواہ اس فنڈ میں جمع کرانا شروع کی اور اس فنڈ سے ان گھرانوں کو وظائف جاری کرنا شروع کر دئیے جن کی چادریں چھوٹی اور ضروریات کے پاﺅں لمبے تھے۔ لی مائیونگ باک صرف یہیں تک محدود نہیں رہے بلکہ انہوں نے اپنی ذاتی دولت کا اسی فیصد یعنی 33ارب 10کروڑ وان غریب اور ضرورت مند طالب علموں کے نام وقف کر دیا۔لی موئیونگ باک کا کہنا تھا وہ باقی 20فیصد رقم اپنی بیگم اور چار بچوں کیلئے چھوڑ رہے ہیں۔ صدر لی موئیونگ نے 33ارب 10کروڑ سے ایک فاﺅنڈیشن بنائی اور جنوبی کوریا کے تمام ضرورت مند طالب علموں سے درخواست کی کہ وہ تعلیمی اخراجات کیلئے کسی بھی وقت اس فاﺅنڈیشن سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment

Powered by Blogger.

Facebook

Powered By Blogger

state life insurnace corporation of pakistan

Arquivo do blog

Translate

Random Posts

Recent Posts

Header Ads

Business

Fashion