ایک امریکی ریاست میں ایک بوڑھے شخص کو ایک روٹی چوری کرنے کے الزام میں گرفتار کرنے کے بعد عدالت میں پیش کیا گیا‘جج نے اس روٹی چور سے پوچھا کیا تم نے روٹی چرائی ہے‘ اس بوڑھے شخص کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ وہ کچھ دیر خاموش کھڑا رہا‘ اس نے اپنے آنسو صاف کئے اور پھر بولا‘ جی ہاں! جج صاحب میں نے روٹی چوری کی ہے‘ جج اس کے اعتراف جرم پر حیران رہ گیا‘ یہ شاید اس کی زندگی کا واحد چور تھا جس نے یوں فوراً اعتراف جرم کر لیا‘ وہ بوڑھا شخص دوبارہ بولا‘جج صاحب اگر
میں روٹی چوری کر کے نہ کھاتا تو میں مر جاتا کیونکہ میں کئی دنوں سے بھوکا تھا‘ بھوک کی شدت اب اتنی زیادہ ہو گئی تھی کہ میرا بچنا محال تھا۔یہ کہہ کر وہ شخص خاموش ہو گیا‘ عدالت میں خاموشی چھا گئی۔جج کہنے لگا ‘ تم اعتراف کر رہے ہو کہ تم چور ہو‘میں تمہیں دس ڈالر جرمانے کی سزا سناتا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ تمہارے پاس یہ رقم نہیں اسی لیے تو تم نے روٹی چوری کی ہے لہٰذا میں تمہاری طرف سے یہ جرمانہ اپنی جیب سے ادا کرتا ہوں ‘مجمع پر سناٹا چھا جاتا ہےاور لوگ دیکھتے ہیں کہ جج اپنی جیب سے دس ڈالر نکالتا ہے اور اس بوڑھے شخص کی طرف سے یہ رقم قومی خزانے میں جمع کرنے کا حکم دیتا ہے پھر جج کھڑا ہوتا ہے اور حاضرین کو مخاطب کر کے کہتا ہے ‘’ میں تمام حاضرین کو دس دس ڈالر جرمانے کی سزا سناتا ہوں اس لیے کہ تم ایسے ملک میں رہتے ہو جہاں ایک غریب کو پیٹ بھرنے کے لیے روٹی چوری کرنا پڑی ‘
اس مجلس میں 480 ڈالر اکھٹے ہوئے اور جج نے وہ رقم بوڑھے مجرم کو دے دی۔ یہ قصہ حقیقت پر مبنی ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں غریب لوگوں کی مملکت کی طرف سے کفالت اسی واقعے کی مرہون منت ہے ‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ چودہ سو سال پہلے ہی یہ کام کر گئے کہ پیدا ہوتے ہی بچے کا وظیفہ جاری کرنے کے حکم دےدیا۔ذرا سوچئے دس روپے ہمارے لئے اتنی اہمیت نہیں رکھتے جتنے کہ اس لاچار کے لئے رکھتے ہیں جو جانے کب سے بھوکا ہے‘تبدیلی کے لیئے ہمیں خود کو بدلنا پڑتاہے‘کسی کی خوشی کا موجب بننا ہی سب سے بڑی خوشی ہے۔
No comments:
Post a Comment