وشنید کے بعد آیا۔ ہم اب سوشل میڈیا کی طرف آتے ہیں‘ سوشل میڈیا پہئے اور بجلی کی ایجاد کے بعد دنیا کا سب سے بڑا انقلاب ہے‘ دنیا 2010ءسے قبل چھ براعظموں اور 245 ملکوں میں تقسیم تھی‘ یہ ملک سرحدوں‘ نسلوں‘ زبانوں اور ثقافتوں میں منقسم تھے‘ سوشل میڈیا ایجاد ہوا‘ فیس بک‘ ٹویٹر‘ واٹس ایپ اور وائبر آیااور اس نے 245 ملکوں کے درمیان موجود سرحدیں گرا دیں‘ اس نے ثقافت‘ زبان اور نسل کی تفریق مٹا دی اور دنیا حقیقی معنوں میں ایک عالمی گاﺅں بن ہو گئی‘ آج الاسکا کی آخری چٹان پر بیٹھا مچھیرا نیوزی لینڈ کے آخری کونے میں موجود کسان کے ساتھ رابطے میں ہے‘ گوگل اور یوٹیوب یونیورسٹیاں بن چکی ہیں‘ آپ یوٹیوب کے ذریعے کیل ٹھونکنے سے جہاز بنانے تک دنیا جہاں کا علم حاصل کر سکتے ہیں‘ آپ امام کعبہ کو پیغام بھجوا سکتے ہیں اور آپ ان کا جواب بھی وصول کر سکتے ہیں‘ آپ کے موبائل میں یقینا وہ ”ایپ“ موجود ہو گی آپ جس کے ذریعے دنیا کے 20 نامور قاری حضرات کی تلاوت سن سکتے ہیں‘ آپ کے پاس وہ ”ایپ“ بھی ہو گی جس کے ذریعے آپ دنیا کے کسی بھی خطے کا کوئی بھی ریڈیو اپنے موبائل فون پر ”پلے“ کر سکتے ہیں اور آپ کے پاس وہ ایپ بھی ہو گی جس کے ذریعے آپ خود کو تندرست اور توانا رکھ سکتے ہیں‘ یہ ایپ آپ کو بتاتی ہے آپ کو کیا کھانا چاہیے‘ کب کھانا چاہیے اور آپ کو کس وقت اٹھ کر چہل قدمی کرنی چاہیے‘ اسی طرح کورا (Quora) نام کی ایک ایپ آپ کے ہر سوال کا جواب دیتی ہے‘ آپ سوال لکھیں اور دنیا جہاں کے ماہرین آپ کو جواب دینا شروع کر دیں گے‘ سوشل میڈیا صرف یہاں تک محدود نہیں بلکہ یہ اخبارات‘ ٹیلی ویژن‘ کتاب اور ٹیلی فون کو بھی ”ہائی جیک“ کر چکا ہے ‘ یہ دنیا کا بہت بڑا سورس آف انکم بھی بن چکا ہے‘ دنیا کی 35 فیصد دولت اس وقت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جیب میں ہے اور اس کا بڑا حصہ سوشل میڈیا کے پاس ہے‘ سوشل میڈیا اب میوزک البم بھی ہے ‘ فلموں کا آرکائیو بھی اور تاریخ کا حوالہ بھی‘ میں اب گوگل پر کسی شخص کا نام ٹائپ کرتا ہوں اور وہ شخص‘ اس کا پروفائل اور اس کا کام چند سیکنڈ میں میرے سامنے آ جاتا ہے‘ یہ ساری سہولتیں 2010ءتک دستیاب نہیں تھیں لہٰذا اس کا تمام
تر کریڈٹ سوشل میڈیا کو جاتا ہے۔ دنیا کی ہر چیز کے اچھے پہلو بھی ہوتے ہیں اور برے بھی‘ سوشل میڈیا میں بھی درجن بھر خرابیاں موجود ہیں‘ ان خرابیوں میں سب سے بڑی خرابی سنسر شپ کی کمی ہے‘ آپ سوشل میڈیا کے کسی بھی پیج پر کوئی بھی مواد چڑھا سکتے ہیں‘ دنیا کا کوئی شخص آپ کو روک نہیں سکے گا‘ یہ خرابی خوفناک ہے اور اسلامی دنیا اس وقت اس خرابی کا سب سے بڑا ہدف ہے‘ دنیا کے چند منافق مسلمان‘ چند عاقبت نا اندیش پاکستانی‘ چند شرپسند غیر مسلم اور چند ننگ افلاس قادیانی اس خرابی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں‘ یہ سوشل میڈیا پر روزانہ ایسا گستاخانہ مواد چڑھا دیتے ہیں جو ہم مسلمانوں کے لئے ناقابل برداشت ہے‘ پاکستان میں ایسے 70 گستاخ ہیں‘ ایف آئی اے نے 11 لوگوں کا ایک ایسا گروپ بھی پکڑا جومسلسل یہ مکروہ حرکت کر رہا تھا‘ یہ لوگ پاکستان سمیت پوری اسلامی دنیا میں انتشار پھیلا رہے ہیں‘ یہ لوگ ایسا کیوں کر رہے ہیں‘ اس کی تین وجوہات ہیں‘ سوشل میڈیا ٹیلی کام انڈسٹری کو خوفناک نقصان پہنچارہا ہے‘ ان میں سے چند لوگ موبائل فون کمپنیوں کے ایجنٹ ہیں‘ یہ ایجنٹ سوشل میڈیا پر پابندی لگوانا چاہتے ہیں تاکہ ملک میں فیس بک‘ واٹس ایپ اور وائبر سمیت رابطوں کی تمام ویب سائیٹس بند ہوجائیں‘دوسرا‘یہ لوگ پاکستان کے امیج کو بھی نقصان پہنچانا چاہتے ہیں‘ یہ پیجز یورپ سے چل رہے ہیں اور انہیں بھارتی کمپنیوں کی ٹیکنیکل سپورٹ حاصل ہے‘ یہ لوگ سوشل میڈیا کو بند کرا کر پاکستان کو مزید بدنام کرنا چاہتے ہیں‘آپ کو یاد ہوگا ہم نے ستمبر2012ءمیں یوٹیوب بند کر دی تھی‘ ہمارے اس فیصلے نے ہمارے بین الاقوامی امیج کو ٹھیک ٹھاک ذک پہنچائی تھی‘ یہ لوگ ہم سے دوبارہ یہ غلطی کرانا چاہتے ہیں اور تین یہ لوگ ملک میں مذہبی انتشار پھیلانا چاہتے ہیں‘ یہ لوگوں کے ذریعے لوگوں کو قتل کرانا چاہتے ہیں تاکہ ملک میں فرقہ واریت بڑھ جائے ۔ ہمارے پاس اب دو آپشن ہیں‘ ہم فرعونی طریقہ استعمال کریں‘ ہم ملک میں سوشل میڈیا پر پابندی لگا دیں ‘ ہم فیس بک بند کر دیں‘میرا سوال ہے کیا اس فیصلے سے گستاخی بند ہو جائے گی؟ جی نہیں‘ یہ پیج بھی بدستور فیس بک پر موجود رہیں گے اور یہ لوگ بھی نئے طریقوں سے بار بارحملے کرتے رہیں گے‘کیوں؟کیونکہ سوشل میڈیا انٹرنیٹ کی اولاد ہے اور دنیا میں جب تک انٹرنیٹ موجود ہے‘ یہ بدبخت لوگ یہ مکروہ حرکت کرتے رہیں گے‘ کیا ہم سوشل میڈیا کے بعد انٹرنیٹ بھی بند کر دیں گے اور اگر انٹرنیٹ کی بندش سے بھی مسئلہ حل نہ ہوا تو کیا ہم بجلی بھی بند کر دیں گے‘ جی نہیں‘ یہ ممکن نہیں ہے لہٰذا ہم سوشل میڈیا کے سلسلے میں فرعونی طریقہ استعمال نہیں کر سکتے‘ ہمارے پاس اب دوسرا طریقہ بچتا ہے‘ ہم محمدی طریقے کے مطابق گفت و شنید کریں‘ہم معاہدہ کریں اور یہ لوگ اگر معاہدہ توڑیں تو پھر پوری مسلم امہ طاقت استعمال کرے‘ میرا مشورہ ہے پاکستان کو گستاخانہ خاکوں اور غلیظ مواد پر او آئی سی کا اجلاس بلانا چاہیے‘ پاکستان سعودی عرب میں مسلم امہ کے آئی ٹی کے وزراءکو اکٹھا کرے‘ ایک اسلامی معاہدہ تخلیق کرے‘ پوری مسلم امہ اس معاہدے پر دستخط کرے اور یہ معاہدہ بعد ازاں گوگل‘ فیس بک اور ایپل کے سامنے رکھ دیا جائے‘ ان کو پابند کیا جائے یہ اپنا پلیٹ فارم مسلمانوں کی مقدس ہستیوں‘ احادیث اور قرآن مجید کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے‘ یہ ان کمپنیوں سے معاہدے پر عمل کی ضمانت بھی لیں اور او آئی سی میں ایک سوشل میڈیا شکایت سیل بھی بنائیں تاکہ مستقبل میں امہ کے لوگ اس سیل میں شکایت درج کرائیں اور یہ سیل فوری طور پر متنازعہ پیجز اور مواد ”ری موو“ کرائے‘ یہ کمپنیاں اگر یہ شرائط نہ مانیں تو پوری اسلامی دنیا مل کر سوشل میڈیا کا بائیکاٹ کر دے‘ مجھے یقین ہے یہ کمپنیاں یہ دباﺅ برداشت نہیں کر سکیں گی‘ مسلمان دنیا کا تیس فیصد ہیں‘ دنیا کی کوئی کمپنی تیس فیصد گاہکوں کو ناراض کرنے کا رسک نہیں لے سکتی‘ ہمیں ان کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھانا چاہیے‘ یہ پوری امہ کا ایشو ہے‘ آپ اس ایشو پر پوری امہ کو اکٹھا کریں‘آپ یقین کریں یہ مسئلہ چند دنوں میں مستقل طو رپر حل ہو جائے گا ورنہ دوسری صورت میں ہم فیس بک پر پابندی لگائیں گے‘ پوری دنیا میں مذاق بنیں گے اور آخر میں یوٹیوب کی طرح یہ پابندی اٹھانے پر مجبور ہو جائیں گے‘ مومن کے بارے میں فرمایا گیا‘ یہ ایک سوراخ سے دوسری بار نہیں ڈسا جاتا‘ فیس بک یوٹیوب کے بعد دوسرا سوراخ ہے‘ ہمیں اس سوراخ میں انگلی نہیں دینی چاہیے‘ ہم یہاں بھی ڈسے جائیں گے چنانچہ ہمیں یہ ایشو ختم کرنے کےلئے محمدی طریقہ استعمال کرنا چاہیے۔
No comments:
Post a Comment