ایک شخص تھا جو بڑا امیر و کبیر تھا ، بہت بڑا اس کا کاروبار تھا ، جس میں درجنوں ملازمین تھے ، اس کا گھر بھی کافی بڑا تھا اس میں بھی نوکر چاکر کام کرتے تھے ، دن بھر وہ اپنے بزنس میں مگن رہتا شام کو گھر واپس آتا ، اس کا جو اپنا بیڈروم تھا اس کی صفائی ایک جوان العمر لڑکی کرتی تھی ،
ایک دن وہ اتفاق سے وقت سے پہلے گھر آگیا جب یہ اپنے کمرے میں آیا اور نوجوان لڑکی کو صفائی کرتے ہوئے دیکھا ، بس شیطان نے اس کے دل میں خیال ڈالا کہ میں اس لڑکی کو روک لوں تو اس کی آواز کوئی نہیں سنے گا ، اگر یہ میری کسی سے شکایت بھی کرے گی تو کوئی اس کی بات کو نہیں مانے گا ، میں تو پورے پولیس اسٹیشن خرید سکتا ہوں ، ملازمین سب میری بات مانیں گے ، لڑکی نے دیکھا کہ مالک وقت سے پہلے آگئے ہیں تو اس نے جلدی سے جانا چاہا تو مالک نے فوراً ایک زور دار آواز میں کہا ٹھہر جاؤ ، وہ مالک کے تیور دیکھ کر گھبرا گئی ، مالک نے کہا سب کھڑکیاں دروازے بند کردو اب لڑکی پریشان کہ میں کروں تو کیا کروں ۔
لیکن اس کے دل تقوی تھا اَللّہ کا خوف تھا ، آنسوں بہہ رہے ہیں اور اَللّہ سے دعاء بھی کر رہی ہے ،چنانچہ اس نے ایک ایک کر کے سب کھڑکیاں دروازے بند کرنا شروع کر دیئے، کافی دیر ہوگئی لیکن وہ آ نہیں رہی تھی مالک نے ڈانٹ کر کہا کتنی دیر ہوگئی اب تک دروازے کھڑکیاں بند نہیں کی اور تو میرے پاس آئی نہیں ؟ تو اس لڑکی نے روتے ہوئے کہا مالک میں نے سارے دروازے بند کردیئے ساری کھڑکیاں بند کر دی مگر ایک کھڑکی کو بہت دیر سے بند کرنے کی کوشش کر رہی ہوں لیکن مجھ سے بند نہیں ہوپا رہی ہے ، تو اس نے غصے سے کہا وہ کونسی کھڑکی ہے جو تجھ سے بند نہیں ہورہی ہے ؟ تو لڑکی نے کہا میرے مالک جس کھڑکیوں سے انسان دیکھتے ہیں جن کھڑکیوں سے مخلوق دیکھتی ہے میں نے وہ ساری کھڑکی بند کر دی لیکن جس کھڑکی سے رب العالمین دیکھتا ہے۔
اس کھڑکی کو بہت دیر سے بند کرنے کی کوشش کر رہی ہوں لیکن مجھ سے بند نہیں ہو پارہی ہے اگر آپ سے بند ہوسکتی ہے تو آکر بند کر دیں فوراً بات سمجھ میں آ گئی کہ واقعی میں اپنے گناہوں کو کو انسانوں سے چھپا سکتا ہوں لیکن رب العالمین سے نہیں چھپا سکتا وہ اٹھا جلدی سے وضو کیا نماز پڑھی اَللّہ سے معافی مانگی۔ہم میں سے ہر شخص غور کریں کوئی اس کھڑکی کو بند کر سکتا ہے جس سے رب العالمین دیکھتا ہے تو پھر ہم جرآت کے ساتھ گناہ کیوں کرتے ہیں تو پھر ڈٹائی کے ساتھ گناہ کیوں کرتے ہیں ؟ وقتی طور پر نفس کا غالب آجانا یہ الگ بات ہے لیکن ہم گناہ کرتے ہیں اور گناہ پر گناہ کرتے جاتے ہیں عادت ہوتی ہے ہمارے گناہ کرنے کی ہم گناہ کو مکھی کی طرح سمجھتے ہیں پھونک ماری یوں اڑا دی اسی لئے نا کہ ہم کو اس کھڑکی کا یقین نہیں ہے۔اَللّہ پاک ہم سب کو یقین کی دولت سے مالا مال فرمائے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطاء فرمائے ( آمین )
No comments:
Post a Comment