state life insurnace details, business,motivational,networking marketing tips,

STAY WITH US

Post Top Ad

Thursday, 30 March 2017

تم مجھے بتاتے ہو کہ پاکستان میں پانی کے کولر سے گلاس باندھنا پڑتا ہے کیونکہ یہاں کے لوگ بے ایمان ہیں لیکن تم یہ نہیں بتاتے کہ جس کولر کے ساتھ یہ گلاس بندھا ہوا تھا وہ بھی کسی پاکستانی نے کبھی ایصال ثواب کے لئے اپنے کسی عزیز کا نام لکھکر یا ویسے ہی آخرت میں ثواب کے حصول کے لئے اس چلتی راہ میں لگا دیا

تم مجھے بتاتے ہو کہ پاکستان میں
 پانی کے کولر سے گلاس باندھنا پڑتا ہے کیونکہ یہاں کے لوگ بے ایمان ہیں
لیکن تم یہ نہیں بتاتے کہ جس کولر کے ساتھ یہ گلاس بندھا ہوا تھا وہ بھی کسی پاکستانی نے کبھی ایصال ثواب کے لئے اپنے کسی عزیز کا نام لکھکر یا ویسے ہی آخرت میں ثواب کے حصول کے لئے اس چلتی راہ میں لگا دیا

تم مجھے بتاتے ہو کہ مسجد سے جوتے اٹھا لئے جاتے ہیں اب تو اللہ کا گھر بھی محفوظ نہیں
لیکن تم یہ نہیں بتاتے کہ اس مسجد کی تعمیر میں کتنے پاکستانیوں نے اپنی محدود اور لامحدود آمدنی سے چند سکے جوڑ کر یا لاکھوں کے چیکس کیصورت میں حصہ ڈالا ہے
تم یہ نہیں بتاتے کہ وہاں لوگوں کے سکون کیخاطر بجلی کا بل کوئی بھر رہا ہے
وہاں پنکھے ہیٹرز اور اے سی سسٹم کیلئے کچھ لوگ خاموش رہ کر مسلسل حصہ ڈالتے ہیں

تم مجھے بتاتے ہو کہ کسی ایک جگہ ایکسیڈنٹ ہوا تو لوگوں نے زخمیوں کے بٹوے تک نکال لئے
لیکن تم یہ نہیں بتاتے کہ ان رخمیوں کو ہسپتال پہنچانے والے بھی اسی دھرتی کے باسی تھے
یہی وہ لوگ ہیں جو ہر حادثے کے بعد خون دینے کے لئے سینکڑوں کی تعداد میں پہنچتے ہیں

تم یہ تو بتاتے ہو کہ زلزلے میں ملنے والی امداد چند لوگ کھا گئے
لیکن یہ نہیں بتاتے کہ لاکھوں لوگ ایسے تھے جنہوں نے اپنے گھروں سے بالکل نئے بستر نکال کر 2005 کے زلزلے کے بعد ٹرکوں کے ٹرک بھر کر مسائل زدہ بھائیوں کے لئے بھجوا دئے تھے

تم یہ تو بتاتے ہو کہ کسی ناکے پر ایک پولیس والے نے کسی نوجوان کو گولی مار دی
لیکن تم بھول جاتے ہو کہ کتنے سپوت غیور ہماری ماوں نے اس دھرتی کے اوپر وار دئیے

تم مجھے بل گیٹس کے فلاحی کاموں کی مثالیں دیتے ہو
لیکن میرے ایدھی اور چھیپا کو بھول جاتے ہو

تم مجھے بتاتے ہو کہ ایک مشرف اور یحیی خان تھا
لیکن تم بھول جاتے ہوکہ ایک میجرعزیز بھٹی تھا
ایک سوار محمد حسین تھا
ایک میجر طفیل تھا
ایک لالک جان بھی تھا

تم مجھے بتاتے ہوکہ ایک بنگلہ دیش بن گیا جس کے ڈاکٹر یونس کو گرامین بنک پر نوبل انعام مل گیا
لیکن تم میرے ڈاکٹر امجد ثاقب کو بھول جاتے ہو

تم مجھے بتاتے ہو کہ میرے سکولوں کے اساتذہ گنوار اور جاہل ہیں بچوں پر ظلم ڈھاتے ہیں
لیکن تم میرے شجیع نصراللہ کی دریائے کنہار میں لگائی جانے والی چھلانگ بھول جاتے ہو
تم میری سمیعہ نورین کو بھول جاتے ہو جو خود جل گئی لیکن بہت سے بچوں کو بچاگئی
اور آرمی پبلک سکول کی طاہرہ قاضی کو بھی بھول جاتے ہو

لگے رہو تم لگے رہو
میں بھی لگا ہوا ہوں
تم ہر موقعے پرشورمچاتے رہو
میں ان چراغوں کی روشنی میں مزید چراغ جلاتا رہوں گا
تم مایوسی پھیلاتے رہو
میں امید کی ایک مدھم سی کرن کے پیچھے بھی چلوں گا
میں جانتا ہوں کہ اس کرن کے پیچھے کوئی سورج ہے کوئی چاند ہے
دیکھ لینا یہ روشنی کسی دن میرا آنگن
نور سے بھر دے گی
تم تب پلٹو گے جب میں کامیابی کی آخری سیڑھی پر کھڑا مسکرا رہا ہوں گا
لیکن میں تمہیں پھر بھی خوش آمدید کہوں گا کہ
میں امن سلامتی اور محبت کا داعی پاکستان ہوں میں ہی پاکستان ہوں۔

( نااُمیدی کے اندھیروں میں اُمید کے چراغ جلانے والے نوجوان رائیٹر مُحسن حدید کی ایک خوبصورت تحریر )
(منقول)

No comments:

Post a Comment

Powered by Blogger.

Facebook

Powered By Blogger

state life insurnace corporation of pakistan

Arquivo do blog

Translate

Random Posts

Recent Posts

Header Ads

Business

Fashion