اس نے اپنی ساڑھی کے بلوں کے بیچ ایک تانبے کا سکہ دبایا ہوا تھا۔اسے نکالا اور کپکپاتے ہاتھوں سے گاندھی کو پیش کر دیا۔گاندھی پرستاروں کے نعروں میں گم تھا مگر اس نے وہ سکہ لیا اور تہہ دل سے اس بڑھیا کا شکریہ ادا کیا۔ جب سارے چیک، کیش اور امدادی اشیاء ایک جگہ اکٹھے کیے جا رہے تھے تو جواہر لال نہرو نے گاندھی کی طرف ہاتھ بڑھایا کہ وہ سکہ دے دیں تو اس کو بھی امداد میں شامل کر لیا جائے۔ گاندھی نے وہ تانبے کا سکہ دینے سے انکار کر دیا اور بولا کہ یہ بہت قیمتی ہے یہ میں اپنے پاس رکھوں گا۔ نہرو بولا کہ کروڑوں روپے مالیت کے چیک میں ادھر ڈبے میں ڈال رہا ہوں ۔لوگوں نے اتنی بڑی بڑی چیزیں قربان کی ہیں اور اس کے مقابلے میں اس کھوٹے سکے کی بھلا کیا اہمیت؟ آپ مجھے یہ دینے سے کترا رہے ہیں۔
اس نے قہقہ لگایا۔مہاتمہ گاندھی بولا کہ سب نے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق مجھے نظرانے پیش کیے ہیں ۔سب نے اپنی دولت میں سے تھوڑا تھوڑا حصہ دیا ہے لیکن میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس بڑھیا نے اپنی پوری دولت ہمیں پیش کر دی ہے۔ اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا اور جو کچھ اس سے بن پڑا اس نے کیا۔ میرے لیے اس کا جذبہ قابل احترام ہے اور اسی لیے یہ سکہ ہمیشہ میرے پاس ہی رہے گا۔ اس نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ میرے لیے یہ معمولی تانبے کا سکہ کروڑوں روپے کی مالیت سے کہیں زیادہ انمول اور قیمتی ہے۔ حاصل سبق انسان کی قربانی بڑی یا چھوٹی ہو سکتی ہے مگر لیڈر وہ ہوتے ہیں جو جذبے کو اہمیت دیتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment