اس آدمی کو ان سب پر بہت ترس آیا۔ فرشتہ بولا کہ خدا کی رضا سے میں نے تمہیں یہ کمرہ دکھایا اور یہ دوزخ تھی۔آؤ اب میں تمہیں جنت دکھاتا ہوں۔وہ اس کو ایک اور کمرے تک لے گیا۔اس کا دروازہ کھولا تو سامنے پھر بالکل اسی طرح میز لگی تھی اور اس کے گرد چار سے پانچ صحت مند اور خوش باش لوگ بیٹھے تھے۔بیچ میں بالکل اسی طرح چاولوں کی ایک بڑی سی دیگ تھی۔ ان سب کے بازوؤں کے ساتھ بھی اسی قسم کے بڑے بڑے چمچ لگے ہوئے تھے اور وہ ایک دوسرے کو ان بڑے چمچوں سے کھانا کھلانے میں مصروف تھے۔وہ ساتھ ساتھ خوش گپیوں میں بھی مصروف تھے۔ فرشتے نے دروازہ بند کیا اور وہ شخص اور فرشتہ باہر نکل آئے۔ اس نے فرشتے سے پوچھا کہ یہ کیا یہ تو بالکل ایک ہی جیسے تھے۔
فرشتے نے بتایا کہ دونوں میں صرف لوگ فرق فرق تھے۔ دوزخ میں وہ لوگ تھے جو لالچی تھے اور صرف اپنی فکر کرتے تھے اسی لیے ان کو کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیسے چاول کھائیں۔وہ اتنے سالوں سے ان بڑے چمچوں کو کوستے رہتے تھے اور بھوکے بیٹھے تھے جبکہ جنت میں بھی بالکل وہی حالات تھے مگر وہ لوگ لالچی نہیں تھے۔وہ ایک دوسرے کی پرواہ کرتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے سیکھ لیا تھا کہ وہ بڑے چمچوں سے خود تو نہیں کھا سکتے تھے۔انہوں نے بہت سالوں سے ایک دوسرے کو سیر کرنے کی ٹھان لی تھی۔وہ ایک دوسرے کو کھلاتے رہتے تھے اور اسی لیے ان کی تمام خواہشات پوری ہو رہی تھیں اور وہ خوش تھے۔ حاصل سبق یہ ہے کہ جو انسان اپنی زندگی دوسروں کے لیے بسر کرتا ہے اسے دلی اور سچی خوشی نصیب ہو جاتی ہے اور جو لوگ لالچ اور حرص کا شکار رہتے ہیں وہ سب کچھ سامنے ہوتے ہوئے بھی کبھی اپنی پیاس بجھا نہیں سکتے بلکہ ہمیشہ اداس ، مایوس اور نا امید ہی رہتے ہیں۔اپنے لیے توساری دنیا جی لیتی ہے، اوروں کے لیے جینا اور قربانی دینا سیکھو۔
No comments:
Post a Comment