اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے سڑک پار کروا دی‘ کینیڈی کے دوست اس کی اس حرکت پر حیران رہ گئے کیونکہ یہ وہ دور تھا جب امریکہ میں گوروں اور کالوں کے درمیان مساوی حقوق کیلئے جنگ چل رہی تھی چنانچہ گورے کالوں کو پسند نہیں کرتے تھے‘ ان حالات میں کینیڈی جیسے امیر شخص اور سینیٹر کا ایک کالی خاتون کیلئے گاڑی سے اترنا بڑے معانی رکھتا تھا۔ بہرحال قصہ مختصر کینیڈی بوڑھی خاتون کو سڑک پار کرا کر واپس گاڑی میں بیٹھا اور اس کا قافلہ آگے چل پڑا‘ راستے میں اس کے ایک ساتھی نے حیرت سے پوچھا ”سینیٹر آپ کو اتنی تکلیف کرنے کی کیا ضرورت تھی“ کینیڈی نے مسکرا کر جواب دیا ”میں نے اس بوڑھی خاتون کی مدد کر کے امریکہ کی صدارت جیت لی ہے“ کینیڈی کا ساتھی پریشان ہو گیا کیونکہ اس وقت تک کینیڈی نے صدارتی الیکشن لڑنے کا فیصلہ نہیںکیا تھا‘ ساتھی نے پوچھا ”وہ کیسے“ کینیڈی نے جواب دیا”فرض کرو‘ میں صدارتی الیکشن لڑتا ہوں اور میرے ووٹ اور میرے مخالف کے ووٹ برابرہو جاتے ہیں اور اس وقت ہم دونوں میں جس شخص کوایک ووٹ مل جائے گاوہ امریکہ کا صدر بن جائے گا“
ساتھی خاموش رہا‘ کینیڈی بولا ”اور فرض کرو‘ وہ ایک ووٹ یہ بوڑھی کالی خاتون ہو تو کیا ہوگا“ کینیڈی ایک لمحے کیلئے رکا اور دوبارہ بولا ”اس وقت یہ خاتون صرف اورصرف مجھے ووٹ دے گی اور یوں میں نے آج وہ حتمی اور قیمتی ترین ووٹ حاصل کر لیا ہے“ کینیڈی کے ساتھی نے قہقہہ لگایااور اس کے سارے دوست گاڑی کے شیشوں سے باہر دیکھنے لگے لیکن اس واقعے کے چھ برس بعد کینیڈی کی یہ بات سچ ثابت ہوگئی کیونکہ صدارتی الیکشن میں کینیڈی نے اپنے مخالف امیدوار کے مقابلے میں کم ترین برتری حاصل کی تھی‘ اسے صرف اعشاریہ دو فیصد ووٹ زیادہ ملے تھے اور کینیڈی کا کہنا تھا یہ اعشاریہ دو فیصد ووٹ وہ ہیں جو اس نے لاس اینجلس کی سیاہ فام بوڑھی خاتون کادل جیت کر حاصل کئے ہیں۔ کینیڈی نے صدر منتخب ہونے کے بعد اپنے اس ساتھی کو بلا کر اسے یہ واقعہ یاد کرایا تھا اوراس کے بعد بڑی خوبصورت بات کہی تھی‘ کینیڈی نے اپنے دوست سے کہا تھا “اس دن اس خاتون نے میرا ماتھا چوم کر مجھے صدر بننے کی دعا دی تھی اور میں اسی وقت سمجھ گیا تھا میں ایک نہ ایک دن امریکہ کا صدر بنوں گا کیونکہ قدرت کبھی بے لوث دعائیں ضائع نہیں کرتی“۔ کینیڈی نے کہا ”آپ ووٹ سے الیکشن ضرور جیت سکتے ہیں لیکن آپ کو اقتدار ہمیشہ دعا?ں سے ملتا ہے اور جب تک عوام کی دعائیں آپ کا ساتھ دیتی ہیں آپ اقتدار میں رہتے ہیں“۔
No comments:
Post a Comment