state life insurnace details, business,motivational,networking marketing tips,

STAY WITH US

Post Top Ad

Thursday 30 March 2017

امریکا کے سابق صدر جان ایف کینیڈی 1955ءمیں سینیٹر تھا اور اس وقت اس کے صدر بننے کے دور دور تک کوئی آثار نہیں تھے‘ ایک بار وہ اپنے چنددوستوں کے ساتھ لاس اینجلس کے ایک غریبانہ محلے سے گزر رہا تھا‘ کینیڈی کا تعلق کیونکہ ایک رئیس خاندان سے تھا چنانچہ جب وہ سفر کیلئے نکلتا تھا تو اس کے ساتھ دس‘ دس‘ بیس‘ بیس گاڑیاں ہوتی تھیں‘ سابق صدر خود بھی امریکہ کی مہنگی ترین گاڑی استعمال کرتا تھا‘سابق صدر کا قافلہ لاس اینجلس کے ایک ٹریفک سگنل پر رک گیا‘ سگنل کے سامنے سے ایک سیاہ فام بوڑھی خاتون گزر رہی تھی‘ خاتون بیمار تھی‘ اس نے ہاتھوں میں شاپنگ بیگ اٹھا رکھے تھے اور وہ کمزوری کے باعث آہستہ آہستہ چل رہی تھی‘

امریکا کے سابق صدر جان ایف کینیڈی 1955ءمیں سینیٹر تھا اور اس وقت اس کے صدر بننے کے دور دور تک کوئی آثار نہیں تھے‘ ایک بار وہ اپنے چنددوستوں کے ساتھ لاس اینجلس کے ایک غریبانہ محلے سے گزر رہا تھا‘ کینیڈی کا تعلق کیونکہ ایک رئیس خاندان سے تھا چنانچہ جب وہ سفر کیلئے نکلتا تھا تو اس کے ساتھ دس‘ دس‘ بیس‘ بیس گاڑیاں ہوتی تھیں‘ سابق صدر خود بھی امریکہ کی مہنگی ترین گاڑی استعمال کرتا تھا‘سابق صدر کا قافلہ لاس اینجلس کے ایک ٹریفک سگنل پر رک گیا‘ سگنل کے سامنے سے ایک سیاہ فام بوڑھی خاتون گزر رہی تھی‘ خاتون بیمار تھی‘ اس نے ہاتھوں میں شاپنگ بیگ اٹھا رکھے تھے اور وہ کمزوری کے باعث آہستہ آہستہ چل رہی تھی‘ ابھی وہ خاتون سڑک کے درمیان ہی پہنچی تھی کہ سگنل سبز ہو گیا اور گاڑیاں آگے کی طرف رینگنے لگیں‘ سابق صدر فوراً اپنی گاڑی سے اترا‘ بھاگتا ہوا بوڑھی خاتون کے پاس پہنچا‘ اس سے اس کا سامان لیا‘
اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے سڑک پار کروا دی‘ کینیڈی کے دوست اس کی اس حرکت پر حیران رہ گئے کیونکہ یہ وہ دور تھا جب امریکہ میں گوروں اور کالوں کے درمیان مساوی حقوق کیلئے جنگ چل رہی تھی چنانچہ گورے کالوں کو پسند نہیں کرتے تھے‘ ان حالات میں کینیڈی جیسے امیر شخص اور سینیٹر کا ایک کالی خاتون کیلئے گاڑی سے اترنا بڑے معانی رکھتا تھا۔ بہرحال قصہ مختصر کینیڈی بوڑھی خاتون کو سڑک پار کرا کر واپس گاڑی میں بیٹھا اور اس کا قافلہ آگے چل پڑا‘ راستے میں اس کے ایک ساتھی نے حیرت سے پوچھا ”سینیٹر آپ کو اتنی تکلیف کرنے کی کیا ضرورت تھی“ کینیڈی نے مسکرا کر جواب دیا ”میں نے اس بوڑھی خاتون کی مدد کر کے امریکہ کی صدارت جیت لی ہے“ کینیڈی کا ساتھی پریشان ہو گیا کیونکہ اس وقت تک کینیڈی نے صدارتی الیکشن لڑنے کا فیصلہ نہیںکیا تھا‘ ساتھی نے پوچھا ”وہ کیسے“ کینیڈی نے جواب دیا”فرض کرو‘ میں صدارتی الیکشن لڑتا ہوں اور میرے ووٹ اور میرے مخالف کے ووٹ برابرہو جاتے ہیں اور اس وقت ہم دونوں میں جس شخص کوایک ووٹ مل جائے گاوہ امریکہ کا صدر بن جائے گا“

ساتھی خاموش رہا‘ کینیڈی بولا ”اور فرض کرو‘ وہ ایک ووٹ یہ بوڑھی کالی خاتون ہو تو کیا ہوگا“ کینیڈی ایک لمحے کیلئے رکا اور دوبارہ بولا ”اس وقت یہ خاتون صرف اورصرف مجھے ووٹ دے گی اور یوں میں نے آج وہ حتمی اور قیمتی ترین ووٹ حاصل کر لیا ہے“ کینیڈی کے ساتھی نے قہقہہ لگایااور اس کے سارے دوست گاڑی کے شیشوں سے باہر دیکھنے لگے لیکن اس واقعے کے چھ برس بعد کینیڈی کی یہ بات سچ ثابت ہوگئی کیونکہ صدارتی الیکشن میں کینیڈی نے اپنے مخالف امیدوار کے مقابلے میں کم ترین برتری حاصل کی تھی‘ اسے صرف اعشاریہ دو فیصد ووٹ زیادہ ملے تھے اور کینیڈی کا کہنا تھا یہ اعشاریہ دو فیصد ووٹ وہ ہیں جو اس نے لاس اینجلس کی سیاہ فام بوڑھی خاتون کادل جیت کر حاصل کئے ہیں۔ کینیڈی نے صدر منتخب ہونے کے بعد اپنے اس ساتھی کو بلا کر اسے یہ واقعہ یاد کرایا تھا اوراس کے بعد بڑی خوبصورت بات کہی تھی‘ کینیڈی نے اپنے دوست سے کہا تھا “اس دن اس خاتون نے میرا ماتھا چوم کر مجھے صدر بننے کی دعا دی تھی اور میں اسی وقت سمجھ گیا تھا میں ایک نہ ایک دن امریکہ کا صدر بنوں گا کیونکہ قدرت کبھی بے لوث دعائیں ضائع نہیں کرتی“۔ کینیڈی نے کہا ”آپ ووٹ سے الیکشن ضرور جیت سکتے ہیں لیکن آپ کو اقتدار ہمیشہ دعا?ں سے ملتا ہے اور جب تک عوام کی دعائیں آپ کا ساتھ دیتی ہیں آپ اقتدار میں رہتے ہیں“۔

No comments:

Post a Comment

Powered by Blogger.

Facebook

Powered By Blogger

state life insurnace corporation of pakistan

Arquivo do blog

Translate

Random Posts

Recent Posts

Header Ads

Business

Fashion